معذور افراد کی زندگی یقیناً بہت مشکل ہوتی ہے۔ پاکستان سمیت دنیا بھر میں بہت سے افراد اس بیماری کا شکار ہیں۔ لیکن اکثر ایسا بھی دیکھا جاتا ہے کہ معذور افراد کے حوصلے بلند ہوتے ہیں۔ ہم اکثر کئی ایسی ویڈیوز دیکھتے ہیں جن میں معذور افراد معذوری کو مجبوری نہیں بناتے اور اپنی زندگی عام لوگوں کی طرح بسر کرتے ہیں۔
اپاہج افراد کی ذمہ داری لینے سے بہت سے لوگ کتراتے ہیں اور خاص کر ان کے رشتوں کے حوالے سے کافی مسئلے مسائل درپیش ہوتے ہیں۔ لیکن وہ کہتے ہیں نہ اللہ کوئی نہ کوئی وسیلہ بنا ہی دیتا ہے۔
آج ہم چند معذور افراد کے بارے میں بات کریں گے اور جانیں گے کہ انہیں رشتوں میں کیا پریشانیاں لاحق ہوئیں اور اگر رشتہ ہوجائے تو فیملی کا کس طرح خیال رکھا جاتا ہے۔
ٹانگوں کی بیماری میں مبتلا عدیلہ نوشین نے کبھی سوچا نہیں تھا کہ کبھی ان کی شادی ہوسکتی ہے لیکن ان کے شوہر عدیل جو خود بھی معذور ہیں، معذوری کے باوجود 7 سال سے خوشحال زندگی گزار رہے ہیں اور 2 بچوں کے والدین ہیں۔
لیکن ایک وقت تھا جب نوشین کو فکر ہوتی تھی کہ وہ اور ان کے شوہر گھر ٹھیک سے چلا پائیں گے یا نہیں۔
نوشین نے انٹرویو میں بات کرتے ہوئے بتایا کہ میں ایک ہاتھ سے اسٹک پکڑتی تھی اور ایک ہاتھ سے کھانے کے برتن لے جا کر بیڈ پر رکھتی تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ میں ڈرتی تھی کہ اگر ہاتھ سے کچھ گر جائے تو شوہر کچھ بولیں نہ، کیونکہ اس وقت ہماری نئی نئی شادی ہوئی تھی۔
عدیل اور نوشین کو ملوانے والے ہمایوں ظہیر ہیں جو معذور افراد کے رشتے کرواتے ہیں۔ ہمایوں ادارہ بحالی معذور میں ملازمت کرتے ہیں لیکن رضاکارانہ طور پر 22 سال سے خصوصی افراد کی میچ میکنگ کا کام بھی سر انجام دے رہے ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ معذوری کے ساتھ جینے والے بھی اپنے جیسے شخص کے ساتھ رشتہ کرنے سے کتراتے ہیں۔ ان کا انٹرویو میں کہنا تھا کہ ہمارا ایک طریقہ کار ہوتا ہے وہ یہ کہ اگر ایک ساتھی کی معذوری زیادہ ہے تو دوسرے کی کم ہو تاکہ وہ آپس میں باآسانی انتظام اور بندوبست کرسکیں۔
دوسری جانب سیدہ امتیاز فاطمہ ایک بیٹے کی والدہ ہیں اور وہ تیس سال سے معذور افراد کے حقوق کے لیے کام کر رہی ہیں۔ ان کی شادی شدہ زندگی صرف تین ماہ کی مہمان تھی۔ رپورٹ کے مطابق خاتون کے گھر والوں نے ان کے لیے ایک غیر معذور شخص شادی کے لیے منتخب کیا تھا کہ شاید وہ ان کا سہارا بن جائے لیکن معاملہ جہیز کے مطالبے سے شروع ہوا اور خاوند کے بھاری تقاضو کے بوج تلے ختم ہوا۔
خاتون وہیل چئیر پر اپنے بیٹے کی پرورش کرتی ہیں اور اس کے کمانے کی ذمہ داری سیدہ نے خود اٹھائی۔ خاتون کا انٹرویو میں کہنا تھا کہ ان کے شوہر نے ان کے ساتھ غلط رویہ اختیار کیا اور انہیں کرائے کے گھر میں بے سہارا چھوڑ کر چلے گئے۔
ان کا کہنا تھا کہ شادی کے 15 دن بعد اندازہ ہوگیا تھا کہ وہ کچھ نہیں کماتے تھے اور نہ ان کے گھر والے انہیں اپنے ساتھ رکھنا چاہتے تھے۔ میرے شوہر نے اپنا بوجھ اتار کر معذور لڑکی کے کندھوں پر ڈال دیا۔